( حماس )
حماس یا تحریک مزاحمت اسلامیہ (عربی: حرکۃ المقاومۃ الاسلامی ) فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے ، جس کی بنیاد 1987ء میں شیخ احمد یاسین نے رکھی۔
شہر میں حماس کے قیام کی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر ہونی والی ایک ریلی میں چالیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔ اس جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے مرحوم رہنما شیخ احمد یاسین شہید نے 2025ء تک اسرائیل کے صفحہ ہستی سے ختم ہوجانے کی پیشین گوئی کی تھی۔ 2004ء میں
احمد یاسین اور ان کے بعد ان کے جانشین عبدالعزیز رنتسی شہید کی شہادت کے بعد ہزاروں افراد ان کے قتل پر احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے۔
پہلا معاشرتی امور جیسے کہ اسکولوں ہسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر کے لئے مختص ہے اور دوسرا گروہ اسکی عسکری شاخ، شہید عزالدین القسام بریگیڈ ہے جو فلسطین کا دفاع کرتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ حماس کی ایک شاخ اردن میں بھی ہے جہاں اس کے ایک رہنما خالد مشعل کو اسرائیل نے متعدد مرتبہ قتل کرنےکی کوشش کی۔
حماس یا تحریک مزاحمت اسلامیہ - عربی حرکۃ المقاومۃ الاسلامی |
نام: |
|
احمد یاسین، عبد العزیز رنتیسی |
بانی: |
|
اہل سنت، مسلم |
مذہب: |
|
فلسطینی خود اقتدار، اسلامی بنیادیات، فلسطینی قومیت،
اسلامی سیاست (سیاست اسلامیہ)، اہل سنت |
نظریات: |
|
بین الاقوامی اشتراک |
صیہونی سکیورٹی توڑ کر اسرائیل پر حملہ کرنیوالی 'حماس' کیا ہے؟
ہفتے کی صبح فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس نے غزہ سے اسرائیل پر اچانک حملہ شروع کیا جو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان برسوں سے جاری سب سے سنگین
کشیدگی میں سے ایک ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے اسرائیل پر حملوں میں سینئر فوجی کرنل سمیت ہلاک اسرائیلیوں کی تعداد 500 سے تجاوز کر گئی جب کہ 1800سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔
اس کے علاوہ عرب میڈیا کا بتانا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے حماس کے حملوں میں 200 اسرائیلیوں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔
حماس کیا ہے؟
حماس جو کہ حرکت المقاوۃ الاسلامیہ کا مخفف ہے، ایک اسلامی مزاحمتی تحریک ہے جس کی بنیاد 1987 میں پہلی فلسطینی بغاوت کے دوران رکھی گئی تھی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ اخوان المسلمون کے اسلامی نظریے کا اشتراک کرتا ہے، جو مصر میں 1920 کی دہائی میں قائم ہوا تھا، اس وقت حماس یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینی جماعتوں کے اتحاد 'تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی مخالفت میں وجود میں آئی تھی۔
حماس کے قیام کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں اسرائیلی حکومت نے اسے مالی معاونت فراہم کی تھی تاکہ یاسر عرفات اور پی ایل او کا زور توڑا جا سکے تاہم حماس اور اسرائیل دونوں ہی ایسے دعووں کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
اس کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ تنازعات کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں، جن میں اکثر حماس کے غزہ سے اسرائیل پر راکٹ حملے اور اسرائیلی فضائی حملے اور غزہ پر بمباری شامل ہے، حماس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور 1990 کی دہائی کے وسط میں اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے درمیان طے پانے والے اوسلو امن معاہدے کی مخالفت کی۔
حماس کا مسلح ونگ:
حماس کا ایک مسلح ونگ ہے جس کا نام 'عزالدین القسام بریگیڈ' ہے، یہ اپنی مسلح سرگرمیوں کو اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کے طور پر بیان کرتا ہے۔
حماس ایک علاقائی اتحاد کا حصہ ہے جس میں ایران، شام اور لبنان میں حزب اللہ نامی گروپ شامل ہیں، جو مشرق وسطیٰ اور اسرائیل میں امریکی پالیسی کی وسیع پیمانے پر مخالفت کرتے ہیں جب کہ اس کی طاقت کا مرکز غزہ ہے، حماس کے فلسطینی علاقوں میں بھی حامی ہیں، اور اس کے رہنما قطر سمیت مشرق وسطیٰ میں پھیلے ہوئے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق حماس (تحریک مزاحمت اسلامیہ) فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی قومیت ، بنیاد پرست جماعت ہے۔
حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے۔
پہلا گروہ فلاحی و معاشرتی امور جیسے کہ اسکولوں اسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر کا حامی ہے جبکہ دوسرا گروہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والا ہے۔ اسرائیل کے خلاف کارروائیاں زیادہ تر فلسطین کی زیر زمین عزالدین القسام بریگیڈ سر انجام دیتی ہے۔
حماس کے منشور کے مطابق یہ گروہ اسرائیل کی تباہی کے لیے پُرعزم ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ حماس کے عسکری ونگ ”عز الدين القسام بریگیڈ“ کی طاقت بڑھتی رہی اور سنہ 2005 کے بعد حماس نے فلسطینی سیاسی عمل میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی۔
2006 میں حماس نے فلسطین کے قانون ساز انتخابات میں کامیاب ہوکر 2007 میں اس وقت کے صدر محمود عباس کی فتح تحریک پر سبقت لیتے ہوئے غزہ پر اپنا سیاسی اثر و رسوخ مضبوط کیا۔
اس گروہ کی غزہ میں اسرائیل کے ساتھ تین بڑی لڑائیاں بھی ہوچکی ہیں۔ مجموعی طور پر حماس اور کچھ معاملات میں اس کے عسکری ونگ کو اسرائیل، امریکا، یورپی یونین، برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے دہشت گردہ گروہ قرار دے رکھا ہے۔
حماس کے خلاف متعدد اسرائیلی آپریشنز کے باوجود یہ تنظیم قائم رہی اور اس نے اسرائیل کی طرف سے طاقت استعمال کرنے کا جواب خودکش حملے کرنے کی صورت میں دیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق فروری اور مارچ 1996 میں بم بنانے کے اپنے ایک ماہر کارکن یحییٰ ایاش کی موت کا بدلہ لینے کے لیے بسوں میں متعدد خودکش دھماکے کیے گئے جن میں 60 کے قریب اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق حماس کو 2004 میں اس وقت بڑا دھچکا پہنچا جب مارچ اور اپریل میں بالترتیب حماس کے روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین اور اُن کے جانشین عبدالعزیز الرانتیسی غزہ میں اسرائیلی میزائل حملوں میں شہید ہوئے۔
0 Comments